12 September 2018
فتنہ
نوے کی دہائی کی بات ہے، میں کراچی کے جس علاقے میں پلا بڑھا وہ
صحیح معنیٰ میں ایک ’کاسموپولیٹن‘ سوسائٹی تھی۔ ہندو، عیسائی، پارسی اورمسلمان سب ہی مل جل کر رہ رہے تھے۔ میرے پڑوس میں ہی ایک قادیانی فیملی بھی رہتی تھی، جن کے بچّوں سے میری بہت اچھی دوستی تھی۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ دوستی بھی بڑہتی گئی اور گھر میں آنا جانا بھی، ایک مذہبی بیک گراؤنڈ کے باوجود میرے گھر کا ماحول کافی ’سیکیولر‘ تھا ، یہی
وجہ ہے کے میرے گھر والوں نے کبھی اعتراض نہ کیا۔
میرا قادیانی دوست (اور اُس کے دیگر بھائی بھی) بہت ذہین اور قابل تھا، پڑہائی میں مجھ سے کہیں آگے۔ اور اُس کے خاندان کے تمام ہی افراد اپنے اطوار اور رویے کے باعث پورے محلے میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
اکثر ہم دوسرے دوست اُس کے گھر مدعو ہوتے، اُس کے والدین اور گھر کے دیگر افراد بڑے پرتپاک طریقے سے ہمارا استقبال کرتے، کوئی دن ایسا نہ ہوتا کہ کھیل یا کسی اور مشغلے کے بعد ہم اُس کے گھر نا جائیں۔۔۔ اور ہم سب میں وہ واحد شخص تھا جس کے گھر والے دوستوں کو اتنی آسانی سے گھر پہ جمع ہونے کی اجازت بھی دیں اور خاطر توازع بھی ہو۔
جیسا کہ ہمارا ماحول تھا، ہم دوستوں میں ہندو بھی تھے، عیسائی بھی اور پارسی بھی، شیعہ
مسلمان بھی اور وہابی و بریلوی مسلمان بھی، میں خود شیعہ تھا لیکن میں نے قرآن اپنے
دیوبندی دوست کے دادا سے پڑھا، جو مولانا احشتام الحق تھانوی کے چچا زاد بھائی تھے۔
کبھی ہم دوست کرسمس پر عیسائی دوست کے ساتھ چرچ پہنچے ہوتے تو کبھی نوروز کی دعوت اُڑانے پارسی کالونی۔۔۔
یہی سلسلہ ہمیں قادیانی کمیونٹی ہال بھی لے جاتا۔ اور ایک دن ہم جمعہ کی نماز کے بعد اسی
سلسلے میں اپنے قادیانی دوست کے ساتھ چل دیے۔ اُس کے اگلے دن ہم میں سے کئی دوست غائب تھے۔ استفسار ہوا تو پتہ چلا کہ قادیانیوں کی عبادت گاہ جانے پر گھروں سے سرزنش ہوئی ہے۔۔۔ ہم میں سے کچھ خاموش ہوگئے۔۔۔ میں ہمیشہ سے ضدّی اور ہٹ دھرم تھا۔ مجھے برا لگا کہ ’جب ہم چرچ یا معبد چلے جاتے ہیں توقادیانیوں کے ساتھ بیٹھ جانے میں کیا برائی ہے؟؟‘
خیر ایک ایک کر کے باقی دوست تو اِس منظر سے غائب ہوگئے، میں اپنے قادیانی دوست کے ساتھ جاتا رہا۔ اب مجھ پر مزید شفقت ہونے لگی، میرے نام ’مہدی‘ کو بڑی پسندیدگی سے دیکھا جاتا، اور اکثر اس کی اہمیت بھی مجھے بتائی جاتی۔
ایک دن میرے دوست نے مجھے کہا کہ ایک خاص اجتماع ہے، جہاں پورے پاکستان سے لوگ شرکت کے لئے آ رہے ہیں، تم بھی چلو؟ میں تیار ہوگیا۔
کمیونٹی سینٹر میں اُس دن خاصا رش تھا، میں مجمع میں مختلف رنگ اور نسل کے لوگ دیکھ رہا تھا۔ کئی عالم ٹائپ کے لوگ وہاں آئے اور اپنی تقاریر سے حاضرین کے علم میں اضافہ کرتے رہے کہ ’مرزا غلام احمد قادیانی‘ دراصل کون تھے اور کس لئے ’اتارے‘ گئے تھے۔ کم عمر اور لاابالی میں ضرور تھا لیکن بے وقوف نہیں۔۔۔ شائد دیگر دوستوں کی غیر موجودگی میں پہلی بار میں نے غور سے اپنے اطراف کا جائزہ لیا اور میری عقل کی گھنٹی بجنے لگی۔۔۔
جو ’منجن‘ وہاں بیچا جا رہا تھا۔ وہ کافی محنت سے تیار کردہ لگتا تھا۔ شیعہ افراد کو لبھانے کے لئے ’مہدی‘ کی آمد۔۔۔ اور سنی اور عیسائیوں کے لئے ’مسیح موعود‘ جیسی تشبیہات کا استعمال کیا جا رہا تھا۔ کہ ہر اطراف سے مذہبی عقائید پر ایمان رکھنے والوں کو لبھایا جائے۔۔۔ تقریب کے آخر میں ’مرزا صاحب‘ کی ایک عدد دلفریب اور ’اوریجنل‘ تصویر کی رونمائی بھی ہوئی۔ اور بعد میں حاضرین کو اُن کے ’ہینڈلرز‘ کے زریعے پروپگینڈا میٹیریل سے نوازہ گیا۔
میں چپ کر کے وہاں سے کھسک آیا۔۔۔ اُسی شام میرا دوست یا ’ہینڈلر‘ میرے پاس آیا اور بڑے نفیس انداز میں ’انڈائریکٹ‘ طریقے سے میرے رائے سننے کے بہانے اُس نے مجھے ’مہدی یا مسیح موعود‘ کواپنانے کی دعوت دی۔۔۔ اُس کے بعد کئی سال تک ہماری بحث بھی چلی اور ساتھ دوستی بھی۔۔۔ اُس نے کبھی یہ اقرار نہیں کیا کہ وہ رسول اللہ حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی
مانتا ہے،اور ’امتی نبی‘ ، ’مسیح موعود‘ اور انگنت دوسرے زاویہ بنا بنا کر قادیانیت کا دفع کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ایک دن اچانک وہ ’جرمنی‘ چلا گیا جہاں وہ نیوکلئیر سائنٹسٹ ہے۔۔
ہماری بحث کے دوران صرف ایک ہی بات اُسے بُری لگتی، جب استفسار کے باوجود اُسے ’احمدی‘ کی بجائے ’قادیانی‘ کہا جاتا۔۔۔ اِس کی وجہ میں آگے اجاگر کروں گا
اس تمام کہانی کو بیان کرنے کی صرف ایک وجہ ہے۔۔۔ آج کل ’اقلیتوں‘ کے حقوق پر علم رکھنے والے اور بے علم ، دونوں ہی بری شدو مد سے شور مچا رہے ہیں۔ لیکن ۲ باتوں کو سمجھنا بہت
ضروری ہے۔
(1)
!!قادیانیت خاتم النیبین کی نفی ہے، لہٰذا اسلام کی نفی ہے۔ اسی لئے اسے فتنہ کہا گیا ہے جس تناظر میں اور جس انداز میں اس فتنہ پر بحث کی جارہی ہے، ایک لاعلم کو یہی محسوس ہو
...رہا ہے کہ جیسے یہ کوئی فرقہ ہے
مسلمان ’خصوصاً بر صغیر کے مسلمان‘ انگریزوں کے دور سے ’محمڈن‘ یا ’محمدی‘ کہلائے، یہی وجہ ہے کہ قادیانی فتنہ کے پیدا ہونے کے بعد اُسے ’احمدی‘ کہلانے پر زور دیا گیا، تاکہ نعوذ باللہ ایک تسلسل کی طرف اشارہ ہو۔
(2)
پاکستان میں بسنے والے ہندو، عیسائی، پارسی یا کوئی بھی اور مذہب، برملا اسلام کے اصولوں کے خلاف کام نہیں کررہا۔ اِس لئے انہیں ’اقلیت‘ کہناٹھیک ہے۔ قادیانی اس پیرا میٹر میں نہیں آتے ۔ لیکن وہ مسلسل بڑی تندہی کے ساتھ نا صرف خود کو ایک ’فرقہ‘ کے طور پر متعارف کرنے میں مصروف ہیں، بلکہ اسی ٓآزادی کے ساتھ کام بھی کرتے رہے ہیں، حتیٰ کہ کسی مقام پر آکر اُن کی اصلیت واضح ہو جائے۔
31 May 2015
"اگر بول نا آیا تو۔۔۔"
ابھی انقلاب کے نعروں کی بازگشت کسی بھی پاکستانی کے زہن سے اُتری نہیں ہوگی۔
لیکن دنیا میں آج تک جتنے بھی انقلاب آئے، وہ خاص طور پر عوام کے دو طبقوں کی قوت کی بدولت کامیاب ہوئے۔۔ ایک طالب علم [سٹوڈنٹ یونین] اور دوسرا مزدور [لیبر یونین]۔
فیشن ایبل آنٹیاں جمع ہو کر صرف پارٹی کر سکتی ہیں۔۔۔ اور مذہبی تنظیمیں ایک دوسرے کی مساجد پر قبظہ کر سکتی ہیں۔۔۔ انقلاب نہیں لا سکتییں۔۔۔۔
جو نہیں جانتے، انہیں حیرت ہوگی [اور شائد خوف بھی آئے] کہ پاکستان میں ابتدا سے ہی ان دونوں طبقوں میں یونین بنانے،یا سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں آواز بلند کرنے پر، پابندی
رکھی گئی ہے، خصوصاً جرنل ضیا ء کے دور سے۔
انقلاب کی کہاںی [ایک طرح سے] یہاں ختم ہوئی۔۔۔
Murder of Student Unions
labour-movement-in-pakistan
1980's
کے آخری سالوں میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک سیاسی جماعت سامنے آئی، جس میں وڈیروں ، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی بجائے سفید پوش اور غریب مڈل کلاس کے لوگ
حاوی تھے۔۔۔
سے بڑی امیدیں وابستہ ہوئیں۔۔ سب خاک میں مل گئیں ، یاملا دی گئیں۔۔۔ MQM
پرویز مشرف کے دور میں میڈیا انقلاب کے نعرے لگے۔ ٹی وی چینل آنا شروع ہوئے۔ لیکن ستم ظریفی یہ کہ سوائے سونا سمگل کرنے والے بیوپاریوں اور فوجیوں سے لے کر سرمایہ داروں اور سیاسی لوگوں کو بیلک میل کرنے والوں کے علاوہ، کوئی بھی اس نام نہاد انقلاب میں قدم نہیں بڑھا سکا۔۔۔
ایک 'بول' آرہا ہے، جس سے وہی امید دوبارہ روشن ہوئی ہے جو کبھی 'فاطمہ جناح' اور کبھی 'رئِس امروہوی' کے خون سے بجھائی گئی تھی۔۔
اگر بول کو روک دیا گیا۔۔۔ تو پھر۔۔۔۔ اللہ وارث۔۔۔۔
28 February, 2015
“بائولا”
سیانے
کہتے ہیں نام کا شخصیت پر اثر ہوتا ہے۔۔۔ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔
لیکن
یہ اثر کیسے ہوتا ہے؟ اور کس قسم کا ہوتا ہے؟ یہ بتانا مشکل ہے۔
عامر
ایک عام نام ہے پاکستانیوں میں اور عربوں سے اُنسیت رکھنے والی تمام اقوام میں
اتفاق
سے عمر کے ہر حصے میں میری کسی نا کسی عامر سے علیک سلیک رہی ہے،
نام کامطلب تو شائد 'تہذیب یافتہ' ہے، لیکن میں نے عامر نام کے افراد کو ہمیشہ تہذیب سے دور ہی پایا ، بد تہذیب نہیں، من موجی اور ہٹ دھرم، اپنی دھن میں مگن اور اس بات سے لا تعلق کہ ان کے اطراف میں -معاشرے میں- کیا ہو رہا ہے، کیا چل رہا ہے؟
عامر بائولا مجھے نویں جماعت کے سالانہ امتحانات کے دوران ٹکرایا۔ یہ ۱۹۹۴ کی بات ہے ، انگریزی کا پرچہ سر پہ تھا اور حسب معمول تیاری نہیں تھی۔ بہانہ اچھا تھا۔ اپنے اپنے گھر والوں کو گروپ سٹڈی کا چکمہ دے کرسارے دوست فاروقی صاحب کے گھر پہنچے ...ان کے بڑے بیٹے نے نئی دکان شروع کی تھی، وڈیو رینٹل کی، اور اُن کاآدھے سے زیادہ گھر وی۔سی۔آر کی کیسٹ سے بھرا ہوا تھا
رات بھر ہم فلمیں دیکھا کرتے اور صبح پرچہ دے کر خراٹے لیا کرتے، گھر والے ہماری محنت اور جفا کشی پر حیرت زدہ تھے۔۔ خیر۔۔۔
انگریزی کے پرچہ تک ہم امیتابھ بچن اور سلویسٹرسٹالون کی تمام فلمیں دیکھ چُکے تھے، تو فیصلہ ہوا کہ کوئی ڈرائونی فلم دیکھی جائے۔ پرچہ انگریزی کا تھا تو فلم بھی انگریزی ہی ٹہری۔۔
ڈیڑھ گھنٹے کی فلم میں 'فریڈی کروگر' نے ہمیں انگریزی کچھ اتنی اچھی طرح سکھا دی کہ ساتھ ہی 'عربی زبان' کے پرچہ کی بھی تیاری ہوگئی (ڈر کے مارے، جتنی آیات آتی تھی سب ہی پڑھ گئے
فلم ختم ہوگئی توخیال آیا گھر جانے کا۔ سردی کا موسم تھا۔ اور کراچی میں ٹھنڈ پڑے تو سڑکیں بیواہ کی مانگ بن جایا کرتی ہیں۔ میرا گھر سب سے دور تھا، اورڈر بھی مجھے زیادہ لگتا تھا۔ عزت جان سے زیادہ قیمتی نہیں لگ رہی تھی، میں نے الاعلان اپنے خوف کا اظہار کیا اور ساتھیوں سے مدد مانگی، جواب میں صرف قہقہے ہی ملے۔۔۔
ایسے میں عامر کام آیا ۔
لیکن جب میں ۹۰کلومیٹر کی رفتار سے اُڑتی موٹرسائیکل پر عامر کے پیچھے بیٹھا اُس کی آواز میں کشور کمار کے گانے اور سردی کے تھپیڑے برداشت کر رہا تھا ، تو میرے پاس سوائے اپنی بزدلی کو کوسنے کے، کچھ اور کرنے کی گنجائش نہیں تھی۔۔۔
بہر حال اُس کا احسان تھا کہ اُس نے صحیح و سالم گھر پہنچا دیا۔
مجھے ڈراپ کر کے اُس نے گیلی سڑک پر ۱۸۰ ڈگری کے زاویہ پر موٹر سائیکل گھمائی، گرتے گرتے بچا، لیکن بنا کوئی اثر لئے سیٹی بجاتا اور فراٹے بھرتا ہوا نکل گیا۔
بائولا۔۔۔۔
میرا رکھا ہوا نام، اُس کی پہچان بن گیا، حتی کہ دوست یار اُس کا اصل نام بھول ہی گئے ... اُس کی اماں جان بھی تنگ آنے پر اُسے اِسی نام سے پکارا کرتیں
*****
ہم یار دوست اکثر شام کے وقت سینٹ پیٹرکس کالج کے گرائونڈ میں [چوری چھپے] سگریٹ پینے کے لئے جمع ہوتے ، ایک دن سکول سے واپسی پر میں نے اُسے اکیلے گرائونڈ کی سیڑھیوں پر بیٹھے گولڈ لیف کے گہرے کش لیتے دیکھا،
ابھی دوپہر تھی اور تمباکو نوشی کا 'آفیشل' وقت شروع نہیں ہوا تھا۔ میں نے خیریت دریافت کی تو اُس نے بڑے فخر سے بتلایا کہ وہ سارا دن ایمپریس مارکیٹ کی گلیوں میں گھومنے والی غیر ملکی سیاح عورتوں کے 'مخصوص' حصوں پر انگلیوں کے نشانات چھوڑتا رہا ہے۔۔۔ اور اپنے 'انوکھے' تجربہ کا جشن منانے کے لئے بے وقت سگریٹ کھینچ رہا ہے۔ میں نے سوچا نا جانے اس تجربہ کو بُھلانے کے لئے وہ 'غیر ملکی خواتین' کیا پی رہی ہوں گی۔۔۔۔
یہ اُس وقت کی بات ہے جب روس کے بکھرنے کے نتیجے میں، مشرقی یورپ کی خواتین اپنا 'کاروبار' بڑہانے کے لئے کراچی آیا کرتی تھیں
ایک لمبا کش کھینچنے کے بعد وہ اپنے ہاتھ کو فخر سے تکتے ہوئے گویا ہوا "یار۔۔ گوری میمیں نرم کتنی ہوتی ہیں۔۔۔۔
اس کے بعد اُس نے جو کچھ کہا وہ میرے لئےقدرے کراہت آمیز تھا۔۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے اُس کی کسی حرکت پہ تعجب ہوا ہو۔۔
بائولا۔۔۔۔" میں منہ بنا کر بولا، اور وہاں سے چلا آیا۔
*****
فاروقی صاحب کی وڈیو شاپ اُن کے لاابالی لڑکوں سے نا چل سکی۔ میں اُن دنوں ڈان اخبار میں اپنے ۲ اور دوستوں کے ساتھ جزوی نوکری کر رہا تھا۔ روزانہ ہم دوست مل کر منہ اندھیرے اخبار کی نوکری کو جاتے اور پھر واپسی پر اپنے اپنے کالج....عامر کو ہمارا یہ معمول بہت 'رومانوی' لگتا۔
وہ میرے پیچھے پڑ گیا کہ کسی طرح اُسے بھی اخبار کی نوکری دلوائی جائے ...وہ ہائی سکول بڑی مشکل سے پاس کرنے کے بعد پڑہائی چھوڑ چکا تھا
ایک دوست بیمار ہوا تو اُس کی جگہ پُر کرنے کے لئے ہمیں عامر سمجھ میں آیا۔ گمان تھا کہ"تیز موٹرسائکل چلاتا ہے، ۳ گھنٹے کا کام ۱ میں کر لیا کرے گا"
اگلے ہی دن رپورٹ ملی کہ صبح چار بجے گیلی سڑک پر تیزی دکھاتے ہوئے اُس کی موٹر سائکل سلپ ہوئی اور عامر زخمی ہے"۔
گھر گیا تووہ دوا کھا کر اوندھا بستر پر سو رہا تھا۔ اماں نے گالیاں دے کر اُسے اُٹھایا اور ساتھ ہی مجھ پر آشکار ہوا کہ سڑک کی رگڑ سے اُس کےکولہے چھل گئے ہیں، اِس لئے اوندھا لیٹا ہے۔۔۔۔
سمجھاتے کیوں نہیں ہو تُم لوگ اِس بائولے کو۔۔۔۔۔۔" ماں نے اُسے کوسا اور مجھ سے شکایت کی۔۔۔ یہ پہلی بار تھی کہ مجھے پتا چلا ، ماں بھی اب اُسے بائولا کہہ کر بلانے لگی ہے۔۔۔ میں شرمسارہو کر سر جھکائے کھڑا تھا اور ماں برس رہی تھی۔۔۔۔۔
ابھی تو اِس کی شادی بھی نہیں ہوئی۔۔۔۔ اگر خدانخواستہ کچھ تُڑوا بیٹھا تو کون اپنی بیٹی دے گا اِس کو۔۔۔۔۔۔"
اور کچھ تو شائد اثر نہ کرتا۔۔۔ماں کی یہ بات عامر کے دماغ میں گھس گئی۔ اب وہ بیچ سڑک دس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر چلتا،آس پاس سے دوسری سواریاں اُسے گالیاں دیتی ہوئی گذراتیں۔۔۔لیکن عامر کی بلا سے۔۔۔ وہ شادی سے پہلے کچھ تُڑوانا نہیں چاہتا تھا۔۔
*****
کراچی میں موسم اِتنی جلدی نہیں بدلتا جتنی تیزی سے حالات بدلتے ہیں۔ ہم دوست کالج ختم کرنے والے تھے، کراچی میں لاشوں کی بارش ہونے لگی، سیاسی مقاصد کی آڑ میں جس طرح ایک نسل کو کاٹ دیا گیا، اس بات سےسب ہی واقف ہیں۔۔۔
حالات میں اورآئے دن کسی دوست کی جواں سال میت کو کاندھا دیتے ہم سب ہی چُپ ہوگئے تھے، جیسے وقت سے پہلے خزاں کا شکار ہونے والے درخت گنجے تو نہیں ہوتے لیکن اُن کے سبز پتے زردی مائل ہو جایا کرتے ہیں۔خیر۔۔۔
کراچی کی دو باتیں بہت دل لبھانے والی ہیں۔ ایک: اِس شہر میں کوئی بھوکا نہیں سو سکتا، دو: چاہے ایک کونے میں صفِ ماتم بچھی ہو دوسرے کونے میں ضرور کوئی نا کوئی شادیانہ بجا رہا ہوگا۔۔
عامر پر اِن باتوں کا کوئی اثر نہیں تھا، شائد جاہل رہنا اُسے راس آگیا۔
اُن ہی دنوں کراچی میں 'نائٹ ٹیپ بال کرکٹ' اور 'ورائٹی پروگرامز' کا فیشن تھا۔ سپورٹس سے عامر کی دور دور تک کوئی وابستگی نہ تھی، تو اُس نے ایک فنکاروں کا گروپ جوائن کر لیا جو انڈین گانوں کی دُھنوں پر رقص کیا کرتے تھے۔
ہیرو جو ٹھہرا۔۔۔۔۔
جلد ہی عامر کے چرچے ہونے لگے، گلی بازاروں میں ہونے والے شادی بیاہ کے فنکشنز میں وہ رفیع کا گانے 'یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں ۔۔۔۔' پر مجنوں کی ادکاری کرتے ہوئے، کانچ کھاتا، خون تھوکتا، اور مشہور و معروف 'ٹیوب لائٹ' ڈانس پیش کرتا نظر آتا۔
ہم 'تہذیب یافتہ' اور پڑھے لکھے دوست اب دور سے ہی اُسے دیکھ کر کٹ جایا کرتے۔
بائولے پر ضائع کرنے کے لئے وقت کس کے پاس تھا۔۔۔ آہستہ آہستہ وہ ہمارے زہن اور فون بک سے ڈیلیٹ ہو گیا۔
میرےقریبی محلے میں فوزیہ نامی ایک لڑکی رہا کرتی تھی، ماں باپ آزاد کشمیر سے تھے، سرخ و سفید لڑکی جب جوان ہوئی تو ہر دوسری لڑکی کی طرح وہ بھی 'مادھوری' کی ہمشکل بنے کسی شکار کی تلاش میں تھی۔۔۔ جس کی سوچ میں وہ رات کو تکیہ میں منہ دے کر آہیں بھر سکے، سکول سے بھاگ کر ڈیٹ پر جا سکے، اور سنگی سہیلیوں سے تذکرہ کر کے جھوٹ موٹ شرما سکے۔
میں اُس کی ایک سہیلی کو ٹیوشن پڑھانے جا یا کرتا، تو وہ اکثر راہ میں کسی نا کسی بہانے نظر آتی۔۔ کبھی سبزی خریدتی، کبھی چھوٹے بھائی کو 'بن کباب' دلواتی، تو کبھی بُک سٹور پر سلمان خان کے پوسٹرز کے لئے ڈسکائونٹ کا تقاضہ کرتی۔۔۔
اُس کی مسکراہٹ مجھے ہمیشہ عجیب ہی لگی۔ ایک دن اپنی دوست [جو میری سٹوڈنٹ بھی تھی] کے ہاتھ اُس نے میرے لئے 'لو لیٹر' داغ دیا۔ اُس کی لکھائی جتنی خراب تھی، سوچ اور نیت اُس سے بھی زیادہ خراب تھی۔ سمجھ میں میری سب کچھ آ گیا تھا، لیکن میں نا جانے کیوں انجان بنا رہا۔ شائد ہم سب ہی اُس دور میں سنجے دت ہوا کرتے تھے۔۔۔۔
ایک دوست سے تذکرہ کیا ، تو اُس نے بہت ہی بھونڈے انداز میں "پکے ہوئے پھل کو ضائع نا کرنے کا مشورہ دیا"
خیر۔۔ میں کہیں مصروف ہوگیا اور بات آئی گئی ہو گئی۔ کچھ دن بعد پتہ چلا کہ وہ لڑکی [فوزیہ] عامر بائولے کا ساتھ بھاگ گئی ہے۔۔۔ اُس نے کسی شادی کے فنکشن میں عامر کا 'آئٹم' نمبر دیکھا اور وہیں اپنے مجنوں پر فریفتہ ہوگئی۔ دونوں کا معاشقہ کچھ چمک کر چلا، لڑکی کے باپ نے شور مچایا، اور عامر لڑکی کو لے کر 'فنٹر' ہوگیا۔۔۔
کچھ عرصہ بعد، عامر تو واپس آگیا لیکن لڑکی یا اُس کا خاندان پھر نظر نہیں آئے۔۔۔۔
اب عامر کا ایک بالکل ہی نیا روپ تھا، لمبی گُت رکھے، ہاتھ میں موتیہ کے پھول لئے، وہ اکثر گھٹیا شراب کے نشہ میں دھت سڑکوں پر 'یہ دنیا یہ محفل' گاتا نظر آتا۔۔۔ تعجب یہ کہ اب اُس پر مر مٹنے والی لڑکیوں میں 'کشمیر کی فوزیہ' سے کہیں زیادہ 'تہذیب یافتہ' خواتین شامل تھیں۔۔ مجنوں تو بچہ ٹھہرا، عامر "ڈان جوآن' بن چکا تھا۔
دوستوں کی محفل میں کہیں ذکر چھڑ جاتا تو اکثر مجھے خفت اُٹھانی پڑتی۔۔۔ اب مجھے اُس سے عجیب سی کوفت یا نفرت ہو چلی تھی۔ میری نظر بھی پڑ جاتی تو منہ پھیر لیتا یا راہ بدل لیتا۔۔۔
ہیرو
بنا پھرتا ہے۔۔۔ اوقات کیا ہے بائولے کی۔۔۔" میں تپ کر بولتا۔۔۔
*****
یونیورسٹی کے بعد میں نوکری کرنے ملک سے باہر چلا گیا۔۔۔
قریباً تین سال بعد واپس آیا۔ دوستوں یاروں سے ملاقات ہوئی۔ فاروقی صاحب کا انتقال ہوچکا تھا۔۔۔
"اور بائولا؟ وہ کس حال میں ہے؟"
ارے بھائی کیا پوچھ رہا ہے؟" دوست نے ہنستے ہوئے جواب دیا" علامہ ہو چکے ہیں عامر بھائی، مجاہد ہیں وہ۔۔۔ کسی کے سامنےاِس طرح نا پوچھ بیٹھنا۔۔۔آج کل کشمیر میں آزادی کی جنگ چلا رہے ہیں
ہم سب ہی بہت ہنسے اُسے یاد کرکے۔
کچھ عرصے بعد عامر واپس پاکستان آیا۔۔ لیکن زندہ نہیں۔۔ اُس کی لاش کو انتہائی عزت اور احترام کےساتھ کراچی کے ایک قبرستان میں 'شہید' کے کتبے تلے دفن کیا گیا۔
مجھے پتہ چلا تو بےاختیار خیال آیا "بائولا۔۔۔ مرا بھی تو ہیرو بن کر"۔۔۔
لیکن اِس بار میں بآواز بلند نہیں بول سکا۔۔۔
5 January, 2015
پاکستانی عدالت
ایک تقابلی جائزہ
ایک طوطا اور مینا کا گزر ایک ویرانے سے ہوا، وہ دم لینے کے لئے ایک ٹنڈ منڈ درخت پر بیٹھ گئے- طوطے نے مینا سے کہا “اس علاقے کی ویرانی دیکھ کر لگتا ہے کہ الوؤں نے یہاں بسیرا کیا ہو گا”
ساتھ والی شاخ پر ایک الو بیٹھا تھا اس نے یہ سن کر اڈاری ماری اور ان کے برابر میں آ کر بیٹھ گیا- علیک سلیک کے بعد الو نے طوطا اور مینا کو مخاطب کیا اور کہا “آپ میرے علاقے میں آئے ہیں، میں ممنون ہوں گا اگر آپ آج رات کا کھانا میرے غریب کھانے پر تناول فرمائیں”-
اس جوڑے نے الو کی دعوت قبول کر لی- رات کا کھانا کھانے اور پھر آرام کرنے کے بعد جب وہ صبح واپس نکلنے لگے تو الو نے مینا کا ہاتھ پکڑ لیا اور طوطے کو مخاطب کر کے کہا ” اسے کہاں لے کر جا رہے ہو، یہ میری بیوی ہے”
یہ سن کر طوطا پریشان ہو گیا اور بولا ” یہ تمہاری بیوی کیسے ہو سکتی ہے، یہ مینا ہے اور تم الو ہو، تم زیادتی کر رہے ہو”
اس پر الو اپنے ایک وزیر با تدبیر کی طرح ٹھنڈے لہجے میں بولا “ہمیں جھگڑنے کی ضرورت نہیں، عدالتیں کھل گئی ہوں گی- ہم وہاں چلتے ہیں، وہ جو فیصلہ کریں گی، ہمیں منظور ہوگا”
طوطے کو مجبوراً اس کے ساتھ جانا پڑا- جج نے دونوں طرف کے دلائل بہت تفصیل سے سنے اور آخر میں فیصلہ دیا کہ مینا طوطے کی نہیں الو کی بیوی ہے- یہ سن کر طوطا روتا ہوا ایک طرف کو چل دیا- ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ الو نے اسے آواز دی “تنہا کہاں جا رہے ہو، اپنی بیوی تو لیتے جاؤ”- طوطے نے روتے ہوئے کہا “یہ میری بیوی کہاں ہے، عدالت کے فیصلے کے مطابق اب یہ تمہاری بیوی ہے”
اس پر الو نے شفقت سے طوطے کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا “یہ میری نہیں، تمہاری ہی بیوی ہے، میں تو صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الوؤں کی وجہ سے ویران نہیں ہوتیں بلکہ اس وقت ویران ہوتی ہیں جب وہاں سے انصاف اٹھ جاتا ہے
ساتھ والی شاخ پر ایک الو بیٹھا تھا اس نے یہ سن کر اڈاری ماری اور ان کے برابر میں آ کر بیٹھ گیا- علیک سلیک کے بعد الو نے طوطا اور مینا کو مخاطب کیا اور کہا “آپ میرے علاقے میں آئے ہیں، میں ممنون ہوں گا اگر آپ آج رات کا کھانا میرے غریب کھانے پر تناول فرمائیں”-
اس جوڑے نے الو کی دعوت قبول کر لی- رات کا کھانا کھانے اور پھر آرام کرنے کے بعد جب وہ صبح واپس نکلنے لگے تو الو نے مینا کا ہاتھ پکڑ لیا اور طوطے کو مخاطب کر کے کہا ” اسے کہاں لے کر جا رہے ہو، یہ میری بیوی ہے”
یہ سن کر طوطا پریشان ہو گیا اور بولا ” یہ تمہاری بیوی کیسے ہو سکتی ہے، یہ مینا ہے اور تم الو ہو، تم زیادتی کر رہے ہو”
اس پر الو اپنے ایک وزیر با تدبیر کی طرح ٹھنڈے لہجے میں بولا “ہمیں جھگڑنے کی ضرورت نہیں، عدالتیں کھل گئی ہوں گی- ہم وہاں چلتے ہیں، وہ جو فیصلہ کریں گی، ہمیں منظور ہوگا”
طوطے کو مجبوراً اس کے ساتھ جانا پڑا- جج نے دونوں طرف کے دلائل بہت تفصیل سے سنے اور آخر میں فیصلہ دیا کہ مینا طوطے کی نہیں الو کی بیوی ہے- یہ سن کر طوطا روتا ہوا ایک طرف کو چل دیا- ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ الو نے اسے آواز دی “تنہا کہاں جا رہے ہو، اپنی بیوی تو لیتے جاؤ”- طوطے نے روتے ہوئے کہا “یہ میری بیوی کہاں ہے، عدالت کے فیصلے کے مطابق اب یہ تمہاری بیوی ہے”
اس پر الو نے شفقت سے طوطے کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا “یہ میری نہیں، تمہاری ہی بیوی ہے، میں تو صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الوؤں کی وجہ سے ویران نہیں ہوتیں بلکہ اس وقت ویران ہوتی ہیں جب وہاں سے انصاف اٹھ جاتا ہے
28 November, 2014
آج کی دنیا ، ذات کے گرد گھومتی ہے۔۔ فائدہ ہو یا نقصان ، ذات کےلئے ہے، ذات نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ہم میں سے کچھ لوگ شائد خدا پرست کہلانا پسند کریں، کچھ حسن پرست ٹہرے تو کچھ سگ پرست۔ لیکن مانیں یا نا
مانیں ، مادہ پرست سب ہی ہیں۔
میں ٹہرا ہمیشہ کا طالب علم، اور طلب علم کے دوران جو واحد حکومت میرے کسی کام آئی وہ نواز شریف کی حکومت رہی۔
سن ۱۹۹۸میں نواز شریف کی حکومت کی سکیم میں ملنے والی 'یلو کیب' چلا کر میں نے گاڑی چلانا سیکھی اور وقت پڑنےپر اسی ٹیکسی کو چلا کر فیس بھی ادا کی۔
آج یہ پوسٹ میں نواز شریف کی حکومت کے تحت طالب علموں کے لئے جاری کئے گئے 'لیپ ٹاپ' کمپیوٹر پر لکھ
رہا ہوں۔۔
تو کم از کم آج کے دن
'جیو نواز جیو'
No comments:
Post a Comment